Tareekh e Dars e Nizam - تاریخ درس نظامی

darse nizami online
ملانظام الدین سہالوی بانی درس نظامی
خانوادہ علماء فرنگی محل غالبا دنیا کا تنہا خاندان ہے جس میں کم از کم ایک ہزار سال سے نہ صرف پڑھے لکھے لوگ بلکہ نابغہ روزگار علماء پیدا ہوتے رہے جنہوں نے مختلف زمانوں میں اہم علمی خدمات انجام دیں اور اس خاندان کا سلسلہ نسب مشہور صحابی اور میز بان رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو ایوب خزرجی انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک پہنچتا ہے۔
فرنگی محل کی خاندانی روایت کے مطابق اس خاندان کے اجداد موضع بر ناوا ضلع میرٹھ سے سہالی ضلع بارہ بنکی سے ہوتے ہوئے لکھنؤ آئے۔ اس خاندان کے ایک بزرگ قطب عالم خواجہ علاء الدین الانصاری الہروی خراسان سے ہندوستان آنے کے بعد اپنے ہم نام مخدوم علاء الدین برناوی کے آخری زمانے میں یا اس کے کچھ بعد اپنے ہم جد عزیزوں کے پاس برناوا میں مقیم ہوئے اور وہیں انتقال ہوا ۔
ان کے بیٹے شیخ نظام الدین انصاری بر ناوا سے مو جودہ ضلع بارہ بنکی کے قصبہ سہا لی آگئے اور وہیں انتقال ہوا اور سہالی کے قریب ایک مقام ‘‘ روضہ‘‘ میں مدفون ہو ئے ۔
شیخ نظام الدین کے بعد سہالی علم وفن کا مر کز بن گیا اور ان کی آٹھویں پشت میں مشہور زمانہ عالم ملا قطب الدین شہید ہو ئے جن کے متعلق علامہ غلام علی آزاد بلگرامی فر ماتے ہیں۔
ملا قطب الدین شہید امام اساتذہ ومقتدیٰ جہاندیدہ است ، معدن عقلیات ومخزن تعلیمات ۔۔۔۔۔ملا قطب الدین عمرہا انجمن درس آراست وجہان جہاں ارباب تحصیل را بپایہ تکمیل رساند ،امروز سلسلہ استفادہ اکثر علما ء کشور ہندوستان بہ او منتہی می شود‘‘ ۔
یہی ملا قطب الدین شہیدؒ خانوادہ علماء فر نگی محل کے جد امجد ہیں اور انہیں کے چاروں بیٹے یا ان کی اولادوں نے مشعل علم کو اس طرح روشن کیا کہ آٹھ پشتوں تک سارے ہندوستان میں اس کی روشنی پھیلتی رہی اور ہر نسل میں ایک سے زیادہ ایسے عالم پیدا ہوتے رہے جنہیں بجا طور پر نابغہ روزگار کہا جاسکتا ہے اور جن کے علم کی روشنی نے نہ صرف ہندوستان کو بلکہ اسلامی دنیا کے دوسرے حصوں کو بھی منور کیا اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے اگر چہ علم کی نوعیت بہت حد تک بدل چکی ہے ۔
ملا قطب الدین رحمۃ اللہ علیہ کی شہادت ( 19 رجب1104ھ مطابق مارچ 1692ء کے بعد شہنشاہ عالمگیر کے حکم سے ملا شہید کی اولاد کے قیام کیلئے ان کے دونوں بڑے بیٹوں ملا اسعد کو لکھنؤ میں احاطہ چراغ بیگ میں ایک تیل اور گھوڑوں کے یورپین تاجر کی چھوڑی ہوئی خالی عمارت جو فرنگی محل کے نام سے مشہور تھی دے دی گئی اور 1694ء میں ملا سعیداپنے چھوٹے بھائیوں ملا نظام الدین اور ملا رضا نیز دیگر افراد خاندان کو اس فرنگی محل میں آباد کر کے حیدرآباد چلے گئے اور تمام افراد خاندان کی دیکھ بھال کی ذمہ داری اس کم عمر 16 سالہ نوجوان کے سر پر آپڑی جو آئندہ استاذ الہند ملا نظام الدین کے نام سے مشہور ہوا اور جس نے عربی وفارسی کی تعلیم کے لئے وہ درس تر تیب دیا ، جو آج بھی بیشتر عربی وفارسی مدارس میں رائج ہے اور جس نے اس ادارے کی بنیاد ڈالی جس کی بدولت سیکنڑوں سے زیادہ عربی وفارسی نیز ارسو تصانیف وجود میں آئیں ۔
ملا نظام الدین ( پیدئش 1089 ح ،وفات 9 جمادی الاولیٰ 1161ھ مطابق 27 اپریل1748ء ) نے اپنے والد نیز دیگر علماء جیسے ملا امان اللہ بنارسی ، ملا علی ولی جائسی ؒوغیرہ کے سامنے زانوئے تلمذ طے کر نے بعد ملا غلام علی نقشبند لکھنوی سے فاتحہ فراغ پڑھا اور پچیس سال کی عمر میں تحصیل سے فراغت کے بعد مسند درس آراستہ کیا اور اپنے چھوٹے بھائی ملا رضا اور بڑے بھائی ملا سعید کے بیٹوں ملا ( احمد عبد الحئی ( وفات 9 ذی الحجہ 1167ح بمطابق 27 ستمبر 1754ء ) اور ملا عبد العزیز ( متوفی 9 ذی قعدہ 1752ء ) کے ساتھ اس علمی ادارے کو وجود میں لائے جو ان کی فر نگی محل میں سکونت کی وجہ سے ‘‘فر نگی محل ‘‘ کے نام سے مشہور ہوا ۔اور جس میں اس وقت تک تین سو سے زیادہ حضرات گزر چکے ہیں جن میں شاید ہی کوئی کم علم رہا ہو ۔ یہ علماء بنیادی طورسے صاحبِ درس تھے اس لئے ان کی بیشتر تالیفات کا تعلق بھی درس ہی سے ہے اور یہی سبب ہے کہ ان کی تالیفات میں شرحوں اور حاشیوں کی تعداد بہت زیادہ ہے لیکن اس سے یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ وہ محض حواشی ہیں حقیقتا وہ بلند پایہ مستقل تصانیف کا مرتبہ رکھتے ہیں۔
ملا نظام الدینؒ کے عہد میں پہلی مرتبہ اسلامی مدارس کے لئے متفقہ درس ترتیب دینے کا خیال ہوا، چنانچہ دہلی میں شاہ ولی اللہ نے اپنے درس میں منقولات پر زیادہ زور دیا ، جبکہ ملا نظام لدین نے اپنے ترتیب دادہ درس نظامی میں منقولات ومعقولات دونوں پر یکساں زور دیا تھا ۔ چنانچہ ملا نظام الدین کے ترتیب دادہ اس درس نے پورے ملک میں شرف قبولیت حاصل کیا اور آج تک زیادہ تر مدارس میں اسی کے مطابق تعلیم دی جاتی ہے ۔ ملا نظام الدین کو بحیثیت استاد کے اپنی زندگی میں وہ مرتبہ حاصل ہو گیا تھا کہ اکناف واطراف ملک سے نہ صرف طالبان علم ان کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے بلکہ دوسرے اساتذہ کے طلباء بھی فاتحہ فراغ کیلئےملا نظام الدین ( جو اس وقت تک استاذ الہند کے لقب سے شہرت حاصل کر چکے تھے)کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے ۔
ملا صاحب ؒ ایک زبردست استاذ ہو نے کے علاوہ متعدد اہم کتابوں کے مصنف بھی ہیں ۔ جن میں شرح مسلم الثبوت ، شرح تحریر الاصول ، ،متار الاصول ، حاشیہ شرح عقائد جلالی ، حواشی حاشیہ قدیمہ دوانیہ ،حاشیہ صدرا ، حاشیہ شمس بازغہ ،شرح رسالہ مبارزیہ ، مناقب رزاقیہ اور رسالہ دربیان وضو آنحضرت صلی اللہ علیہ شامل ہیں۔ملا نظام الدین نے جس شمع کو روشن کیا تھا اسکی روشنی نے آئندہ نسل میں پورے ہندوستان کو جگمگا دیا ۔اور آج تک زیادہ تر مدارس اس درس نظامی سے فیضاب ہورہے ہیں۔ شان کریمی بانی درس نظامی اور ان کے آباء واجدادکی حشر تک ناز برداری کرتی رہے۔

No comments:

Post a Comment

Note: only a member of this blog may post a comment.